وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم پر تنقید کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ اس اتحاد کی تباہی کے ذمہ دار دو نومولود سیاسی وارث ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جس سیاست کی بنیاد اہلیت کی بجائے خاندانی وراثت پر قائم ہو تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو آج پی ڈی ایم کا ہے۔
انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر لکھا کہ اتحاد کی بربادی کے ذمہ داران دو نومولود سیاسی وارث ہیں جو اپنے بڑوں کو بھی آگے لگانے سے باز نہ آئے۔
شبلی فراز نے کہا کہ عمران خان پاکستان بناتا رہے گا جبکہ سیاسی مخالف اپنی پارٹیاں تباہ کرتے رہیں گے۔
علاوہ ازیں اسلام آباد میں ایک حکومتی اجلاس کے بعد شبلی فراز نے میڈیا سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو کیا صورتحال تھی، ڈالر ناپید تھے اور تجارتی خسارہ بہت بڑا تھا اور ہمارے پاس ڈالر دینے لے لیے نہیں تھے لیکن وزیراعظم نے اپنی ذاتی کوششوں سے سعودی عرب، چین سے مدد کی اور معیشت کو ایک سہارا دیا اور اس سے ادائیگیوں کے مسائل کو حل کیا اور پروگرام شروع کیے جن کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت نے کرنسی کو مصنوعی طریقے سے اوپر رکھا ہوا تھا اور لوگ درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہورہی تھیں تاہم ہم سے مارکیٹ میں لے آئے، ماضی میں ڈالر کو منصوعی سطح پر رکھنے سے 2 طرح کا نقصان ہوتا تھا، ایک یہ کہ ہماری ڈالر خرچ ہوتے تھے اور دوسرا ہماری درآمدات زیادہ ہوتی تھی اور صنعت کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے پر توجہ دی اور اب اسے زیرو پر لے آئے جبکہ کچھ ماہ یہ مثبت بھی رہا۔
انہوں نے کہا اپوزیشن قرضوں کے بارے میں بہت منفی پراپیگینڈہ کرتی رہتی ہے، وہ کہتی ہے کہ ہم نے 2 سال میں 11 کھرب کے قرضے لے لیے، تاہم اس کی وضاحت یہ ہے کہ 11 کھرب میں سے ہم نے 6 کھرب روپے ہم نے قرضوں اور سود کی مد میں ادا کیے، 3 کھرب روپے کرنسی جب اپنی اصل قیمت پر آئی تو اس کے بنے جبکہ ایک ارب 20 کروڑ روپے کورونا کے دوران ہم نے اس طبقے جو غربت کی لکیر سے نیچے ہے، اس کے علاوہ 500 ارب روپے ہم نے حکومت کو چلانے کے لیے حاصل کیے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے شبلی فراز کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن اس پر بڑا منفی پراپیگنڈا کرتی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ہم نے دو سال میں جو قرض لیا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں مہنگائی پر بھی بات ہوئی کیونکہ جب روپے کی قدر کم ہوئی تو اس وجہ سے ہم جو چیزیں درآمد کرتے ہیں جیسے دالیں، پام آئل، پیٹرول مہنگا ہوگیا اور اس وجہ سے مہنگائی آئی اور جنوری 2020 میں مہنگائی 20 فیصد تک چلی گئی تھی جسے ہم دوبارہ سنگل ڈجٹ میں لے آئے ہیں اور اشیا کی چیزیں کم ہورہی ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر، معیشت اور بڑے پیمانے پر مینوفکچرنگ بڑھ گئی ہے، تعمیراتی صنعت بھی متحرک ہوئی ہے اس کے علاوہ ہماری ترسیلات زر، برآمدات بڑھی ہیں جبکہ درآمدات کم ہوئی ہیں، مزید یہ کہ ہماری ٹیکس وصولیاں گزشتہ برسوں کی نسبت بہتر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب معیشت کے مثبت اثرات ہیں جو آہستہ آہستہ عوام تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے تاہم انہوں نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں تو اس وجہ سے کچھ قیمتیں ہماری پہنچ سے باہر ہیں لیکن جیسے جیسے عالمی مارکیٹ میں ان قیمتوں میں کمی آئی گی یہاں بھی اس کی قیتم کم ہوگی۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اجلاس میں خاص طور پر کراچی پیکج پر تفصیل سے بات ہوئی اور اسد عمر نے اس کا ایک جائزہ پیش کیا، جس پر وزیراعظم نے ہدایت دیں اور مقامی ایم پی ایز کو متحرک ہونے کا بھی کہا اور اس اجلاس میں ہماری کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
اس موقع پر سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ جہاں تک سینیٹ انتخابات کا تعلق ہے تو اس میں کچھ ہی ہفتے رہ گئے ہیں، ہماری پارٹی کی پوزیشن بالکل واضح ہے اور وزیراعظم نے پہلے سے کہا ہوا ہے کہ انتخابات کو بالکل شفاف طریقے سے ہونا چاہیے اور ماضی کی ووٹ بیچنے اور خریدنے کی روایت کو ختم ہونا چاہیے اور اوپن ووٹنگ ہونی چاہیے تاکہ اس کا تدارک ہوسکے اور ہم نے سپریم کورٹ سے بھی رائے مانگی تھی کہ وہ اس پر ہمیں طریقہ کار بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وقت آیا تو ہمارا بل بڑا ہوا ہے جسے ہم پیش کریں گے اور پھر اپوزیشن کی مرضی ہے کہ وہ اس کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت کیونکہ اصل مقصد یہی ہے کہ پورے انتخابی عمل میں شفافیت آنی چاہیے۔
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی پیپلزپارٹی کی کوشش پر انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے یہ ناکام ہوگی، بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنے لیے مختلف ہدف رکھتی رہی ہے لیکن سارے اہداف میں اسے بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اندرونی جماعت آپس میں اتفاق نہیں کرتے، پیپلزپارٹی عدم اعتماد لانا چاہتی ہے، مسلم لیگ (ن) اس پر بالکل الگ رائے رکھتی ہے، ان میں آپس میں اتفاق نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے، ان کے مفادات مختلف ہیں اور یہ اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں، تاہم اپوزیشن جمہوری طریقے سے آئین میں رہتے ہوئے جو بھی کرتی ہے وہ ان کا حق بنتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن رہا ہے، براڈشیٹ کا معاملہ حالیہ ہے جبکہ اس سے قبل پاناما کا معاملہ تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت بڑی سطح پر اس ملک میں ان لوگوں نے کرپشن، منی لانڈرنگ کی جو اس کے حکمران رہے اور اس ملک کو غریب کیا۔
انہوں نے کہا کہ براڈشیٹ کا معاملہ جب سامنے آیا ہے تو ہماری جمہوری فرض ہے کہ ہم اس کی تحقیقات کرائیں اور جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی میں جو انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے اس میں دیکھنا ہوگا کہ اس کو کمپنیز کے انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت کیا جائے اور ہم سمجھتے ہیں بڑے بڑے واقعات پر تحقیقات ہونی چاہیے۔
پنجاب میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے، پارٹی میں اراکین اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں اور اراکین نے جو بھی بات کی ہے وہ ایک صوبائی معاملہ ہے اور ہماری صوبائی قیادت اسے حل کر رہی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایک آدھ رکن کی مختلف رائے ہوسکتی ہے جو کوئی بڑی بات نہیں ہے، تاہم پنجاب میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی کوئی بات نہیں ہوئی۔
پی آئی اے کے جہاز سے متعلق انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر کووڈ 19 کی وجہ سے ایئرلائن صنعت کو عالمی سطح پر دھچکا لگا ہے اور ہم اس معاملے کے تناظر میں لیز کی فیص پر مذاکرات کر رہے تھے اور یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔